۲ آذر ۱۴۰۳ |۲۰ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 22, 2024
وحدت اور اسلامی بیداری کے فروغ میں انقلاب اسلامی ایران کا کردار

حوزہ/ ایران میں کُل پندرہ ہزار مساجد ہیں جبکہ اہل سنت ایران کی آبادی کے اعتبار سے آٹھ فیصد ہیں اگر اس لحاظ سے دیکھا جائے تو شیعوں سے بھی زیادہ مساجد ہیں، مگر ان کو اقلیت میں شمار نہیں کیا گیا اور انکو وہی حقوق حاصل ہیں جو کہ اہل تشیع کو حاصل ہیں۔

تحریر: حجۃ الاسلام محمد مہدی فاضل

حوزہ نیوز ایجنسی | خداوندعالم نے  کائنات کو خلق کرنے کے بعد، اسے انسان کے لیے مسخر کیا، اسے زن ومرد  کی صورت میں پیدا کر کے شعبے اور قبیلے بنائے تاکہ ایک دوسرے کی پہچان ہو اور ایک معاشرہ اور امت تشکیل پائے،  دائرہ اسلام میں آنے کے بعد ان کے لیے ضروری ہے کہ وہ وحدت کے دائرے میں رہیں  اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھیں۔   اللہ کی اس وسیع زمین میں ان امتوں اور قوموں کو وحدت کے دائرے میں لانے کے لیے صالح اور نیک راہنماؤں کی ضرورت تھی،   لہذا پروردگار نے انسانوں پر حجت تمام کرنے کے لیے انبیاء و رُسُل بھیجے تاکہ ان کے درمیان اللہ کی کتاب کے قوانین کا اجرا کر کے عدل و انصاف قائم کریں،  قوموں میں تبدیلی اس وقت تک نہیں  آسکتی جب تک وہ خود تبدیل نہ ہوں  لہذا جب خداوندعالم چاہتا ہے کہ اس دنیا میں دین اسلام تمام ادیان پر غالب ہو،  تو یہ اس وقت ممکن ہے جب الہی حکومت قائم ہو،  جس  کا اجراء معصومؑ کی رہنمائی میں  امتوں کی تبدیلی اور ان کی آمادگی کے بغیر ناممکن ہے، یا ان کی غیبت میں حقیقی الہی حکومت کی راہ ہموار کرنے کے لیے جن کے بارے میں امام معصومؑ اشارہ فرمائیں، لہذا غیر معصومین میں سے بھی ہر شخص اس کا اہل نہیں بلکہ وہ شخصیات اہلیت رکھتی ہیں جن کی صفات کو امام معصوم ؑ نے بیان فرمایا ہے۔  

ہم کہہ سکتے ہیں کہ عالم اسلام میں ایرانی، واحد قوم  ہے جس نے اللہ کے اس نظام کو اپنے اوپر لاگو کر کے امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی قیادت میں اسلامی انقلاب برپا کیا۔ اب یہ اسلامی انقلاب کی ذمہ داری ہے کہ’’وَ اعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَميعاً وَ لا تَفَرَّقُوا‘‘ کےحکم کے تحت مسلمانوں میں اتحاد و اتفاق کی فضا قائم کرے ، ورنہ اسلامی نظام حکومت کا فلسفہ بے معنی ثابت ہوگا۔ اس سلسلے میں ہم دیکھتے ہیں کہ استعماری طاقتیں اپنے اقتدار کو باقی رکھنے کے لیے کبھی نہیں چاہتیں کہ مسلماں آپس میں اتحاد  و محبت اور یگانگت کے ساتھ رہیں، لہذا ان کی یہی کوشش ہوتی ہے کہ مسلمانوں میں  ہمیشہ لڑائی جھگڑے اور فتنہ و فساد جاری رہیں اور وہ اپنے مقاصد میں کامیاب رہیں۔ اس مختصر سی تحریر میں ہم بیان کرنے کی کوشش کریں گے کہ انقلاب اسلامی ایران، مسلمانوں میں بیداری اور ان کے درمیان اتحاد و اتفاق کو اجاگر کرنے میں کس حد تک کامیاب ہوا ہے؟

امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی تحریک میں اسلامی وحدت  کا مقام

امام خمینی ؒ نے اسلامی انقلاب کی کامیابی کا راز  چاہے داخلی سیاست ہو یا خارجی، وحدت اسلامی کو قرار دیا ہے، رضا شاہ کے زمانے میں اگر اس فلسفے پر کاربند نہ ہوتے تو طاغوتی استعماری طاقتیں شیعوں اور سنی مسلمانوں کے درمیان تفرقہ پیدا کر کے اپنے پلید اہداف میں کامیاب ہوجاتے۔  امام خمینی ؒ کی سربراہی میں اسلامی تحریک کے پرچم کے زیر سایہ اتحاد اور تمام اسلامی مذاہب کو قریب کرنے کی آواز بلند کرنا اس بات کا باعث بنی کہ درد دل رکھنے والوں کے   دلوں میں امید کا نور جلوہ گر ہوا۔ حضرت امام خمینی رحمۃا للہ علیہ جانتے تھے کہ تمام دنیا اور ایران کی تاریخ میں استعمار کی یہ سازش رہی ہے کہ مسلمانوں کو کسی صورت بھی اکٹھا نہیں ہونے دینا، یہی وجہ ہے کہ جب یکم فروری ۱۹۷۹ء کو فرانس کی جلاوطنی سے واپس اپنے وطن ایران پہنچے تو بہشت زہرا میں اپنی سب سے پہلی تقریر میں ایران کے مسلمانوں کو کلمہ توحید، تفرقہ اور جدائی سے دوری کی طرف دعوت دی۔ 

امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی نظر میں تفرقہ کی وجوہات

امام خمینی ؒ تفرقہ اور انتشار کی چندوجوہات بیان کرتے ہیں:

۱۔استعمار کی سازشیں

امام خمینی ؒ اسلامی انقلاب کی کامیابی کے آغاز میں ہی ان سازشوں کی نشاندہی کرتے ہوئے فرماتے ہیں: 

’’کچھ لوگ ہیں جو شیعہ اور سنی  کے نام پر امریکہ کے ایماء پر لوگوں میں اختلاف پیدا کرنے کی کوشش میں ہیں، ہمارے ملک میں بھی ایسے افراد ہیں جو انہی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں، خدانخواستہ ایسی صورتحال میں یہ عظیم فتنہ سر اٹھائے تو نہ اسلام کا وجود باقی رہے گا اور نہ ہی سنی اور شیعہ باقی رہیں گے۔‘‘ 

۲۔ مسلمانوں کی اسلام اور قرآن سے دوری

اسلام اور قرآن سے دوری، مسلمانوں کی پستی اور زوال کا سب سے اہم عنصر ہے، اس سلسلے میں امام خمینی ؒ فرماتے ہیں: 

’’تمام دنیا کے مسلمانوں کی سب سے بڑی مشکل اسلام اور قرآن سے دوری ہے، اگر مسلمان اللہ تعالی کے صرف اس حکم’’ وَ اعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَميعاً وَ لا تَفَرَّقُوا‘‘   کی تعمیل کرتے تو ان کی تمام مشکلات حل ہوجاتیں ؛ چاہے وہ سیاسی ہوں، اجتماعی ہوں یااقتصادی اور دنیا کی کوئی طاقت ان کا مقابلہ نہ؛ کرسکتی۔‘‘  

ایک اور جگہ فرماتے ہیں: 

’’استعمار اور استکبار کی سازشوں میں سے ایک بڑی سازش یہ ہے کہ مسلمان ملکوں میں اخوت و برادری جیسے قرآنی حکم سے جدا کرکے  ان کو ترکوں، عربوں اور عجموں میں تبدیل کرے اور مسلمان آپس میں دست و گریبان ہوں جو کہ اسلام اور قرآن کے سراسر خلاف ہے۔‘‘  

۳۔ مذہبی رہنماؤں کے اختلافی فتوے

اس سلسلے میں امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: 

’’مسلمان مختلف گروہوں میں بٹے ہوئے ہیں کوئی شیعہ ہے، کوئی سنی ہے، کوئی بریلوی ہے، کوئی حنبلی ہے، کوئی شافعی ہے، کوئی جعفری ہے،  شروع سے ہی یہ اصطلاحات صحیح نہیں تھیں ، ایک معاشرے میں جب یہ چاہتے ہیں کہ اللہ کے لیے اسلام کی خدمت کریں تو اس طرح کی  اصطلاحات استعمال کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ، ہم سب بھائی ہیں، تمام مکاتب فکر کے افراد اپنی اپنی فقہ میں رہتے ہوئے، اپنے علماء کے حکم کے مطابق عمل کرتے ہیں، ہم قرآنی اصول ’’إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ فَأَصْلِحُوا بَيْنَ أَخَوَيْكُمْ وَ اتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُون‏‘‘  کے مطابق بھائی ہیں ، تمام سنی اور شیعہ بھائیوں کو اختلافات سے اجتناب کرنا ضروری ہے۔ آج کے دور میں اختلافات پیدا کرنا، استعمار کو فائدہ پہنچانے کے مترادف ہے، جو نہ تو شیعوں پر اعتقاد رکھتے ہیں اور نہ ہی سنیوں پر، بلکہ ان کی خواہش ہے کہ دونوں کا خاتمہ ہو‘‘ 

امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی نظر میں وحدت کے اصول

امام خمینی ؒ کی نظر میں وحدت کےاصولوں کو کچھ اس طرح بیان کیا جا سکتا ہے:

۱۔ قرآنی دستور کی پیروی

اس سلسلے امام خمینی ؒ ارشاد فرماتے ہیں:

’’قرآن کریم نے مسلمانوں کووحدت کا دستور دیا ہے، یہ دستور ایک سال، دس سال یا سو سال کے ٍلیے نہیں ، بلکہ تمام دنیا والوں کے لیے اور تاریخ سے وابستہ ہے، یہ ہمارا فریضہ ہے کہ ہم قرآن کے اس دستور کو عملی طور پر اپنے اوپر لاگو کریں‘‘۔  

۲۔تشکیل حکومت اور اتحاد امت

امام خمینی ؒتشکیل حکومت کو اتحاد بین المسلمین کے لیے اہم ترین سبب قرار دیتے ہیں:

’’حکومت کی تشکیل،ملتوں کو منظم کرنے اور مسلمانوں کے درمیان اتحاد و وحدت کی  حفاظت کا باعث ہے، چنانچہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا ارشاد فرماتی ہیں:امامت لوگوں کو منظم اور مسلمانوں کو اتحاد کے دائرے میں لے آتی  ہے، لہذا مسلم امہ میں اتحاد اور استعماری  طاقتوں سے نجات حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ حکومت تشکیل دیں‘‘۔ 

۳۔اخوت و برادری

’’اخوت و برادری اتحاد و وحدت کے لیے ایک اہم عنصر ہے، معاشرے میں خیر و برکت کا باعث ہے، خداوندتبارک و تعالی کا شکرگزار ہوں کہ ایران میں اسلامی احکام کے اجراء کے لیے شیعہ اور سنی برادری آپس میں اخوت  کا مظاہرہ کرتے ہوئے، کوشش کررہی ہے‘‘ 

۴۔اختلافات سے پرہیز

’’ہمارے ائمہ معصومین علیہم السلام کی سیرت کا تقاضا ہے کہ ایسے عمل سے اجتناب کرنا چاہئے جو ننگ و عار کا باعث بنتے ہیں، ہمارے لیے سربلندی کا باعث بنیں نہ کہ پستی کا، ان (برادران اہلسنت) کی نماز جماعت اور  تشییع جنازے میں شرکت کریں اور  ان کے بیماروں کی عیادت کریں۔۔‘‘ 

بیداری اسلامی اور انقلاب اسلامی ایران

بین الاقوامی سطح پر مسلمانوں کی بیداری اور اسلامی معاشرے کی تشکیل کے لیے اسلامی تحریکوں نے امام خمینی رحمۃاللہ علیہ سے کافی رہنمائی حاصل کی،جس کا اعتراف مختلف مسالک اور ممالک کے سربراہوں نے کیا، جنہوں نے اپنے تعصب کے باوجود ان کی سیاسی بصیرت اور اتحاد کے فروغ کو سراہا، جدید نسل چاہے وہ پاکستان میں ہو یا افغانستان میں، نائیجیریا میں ہو یا افریقہ میں، بحرین میں ہو یا عراق میں، مسلمان اکثریت کی صورت میں ہوں یا اقلیت  کی صورت میں، سب نے انقلاب اسلامی ایران سے بہت سے راہنما اصول حاصل کیے اور استعماری اور استکباری طاقتوں کے مقابلے میں ثابت قدم دکھائی دئیے، امام خمینی ؒ کی  رحلت کے بعد اس انقلاب  کی باگ ڈور حضرت آیۃ اللہ العظمی سید علی خامنہ دامت برکاتہ نے سنبھالی، انہوں نے امام خمینی ؒ کے افکار کو عملی جامہ پہنایا اور تمام دنیا کے مسلمانوں کے درمیان اتحاد اور وحدت کوفروغ دیا، اس سلسلے میں وقتاً فوقتا ً اپنی تقاریر میں استعمار اور دشمنوں کی سازشوں اور چالوں سے ہوشیار رہنے اور عالمی سطح پر مسلمانوں کو متحد رہنے کی تاکید کرتے رہتے ہیں۔ 

حضرت آیۃ اللہ خامنہ ای ادام اللہ عزہ کی سربراہی میں چلنے والی یہ واحد اسلامی حکومت ہے جو  عالمی سطح پر انسانی حقوق اور تمام اسلامی مذاہب  کی پاسداری کے لیے  آواز بلند کرتی ہے۔ اہل سنت کے عقائد اور ان کے حقوق کا احترام،  ۱۲ ،ربیع الاول سے ۱۷ ربیع الاول تک ہفتہ وحدت، فلاحی اور رفاہی امور میں ان کی ہر لحاظ سے مدد، بیت المقدس کی آزادی کے لیے اہل سنت کے شانہ بشانہ مسلسل کوششیں، دشمنوں کے مقابلے میں ان کا دفاع اور  بین الاقوامی کانفرنسوں میں ان کی نمائندگی،  ان تمام امور میں ایران کی اسلامی حکومت پیش پیش ہے۔ 

ایران میں اتحاد و وحدت کے عملی نمونے

بہتر ہے کہ یہاںپر  ہم تہران میں موجود اہل سنت کے امام جمعہ کی زبانی حقیقت حال بیان کرنے کا شرف حاصل کریں:

تہران میں اہل سنت کی مسجد صادقیہ کےامام جمعہ ’’ماموستا عزیز بابائی‘‘ نے ایک مقامی روزنامہ ’’جہان اسلام‘‘ کو اپنے بیان میں کہا کہ: 

’’تہران میں سو (۱۰۰) سے زیادہ مساجد فعال حالت میں موجود ہیں‘‘

ان کا کہنا ہے کہ:

’’صادقیہ مسجد کے علاوہ ’’مسجد النبی‘‘ تہران کے منطقہ۱۸ ، اور ’’مسجد تہران پارس‘‘ اہل سنت کی بنیادی مساجدمیں سے ہیں اور اہل سنت کے سینکڑوں افراد اس میں نماز عید اور جمعہ کے لیے جاتے ہیں۔ مسجد صادقیہ نے تقریبا ۲۰۰۳ سے اپنی فعالیت کا آغاز کیا۔ ان کے کہنے کے مطابق ترک، بلوچ اور تہران کے جنوب میں رہنے والے اہل سنت حضرات اس مسجد میں نماز باجماعت میں شرکت کرتے ہیں۔ اس وقت تقریباً سات(۷ ) ہزار افراد نماز عیدمیں جبکہ دو(۲) ہزار افراد نماز جمعہ میں شرکت کرتے ہیں‘‘۔

ماموستا عزیز بابائی کہتے ہیں: 

میں شیعہ اور سنی کی مشترکہ جگہ، اردبیل کے علاقے خلخال کے قصبہ میں پیدا ہوا، وہاں اکثریت اہل سنت کی ہے، لیکن شیعوں کے ساتھ اخوت و اتحاد او رمحبت کی فضا میں رہتے ہیں۔  لیکن دشمنان اسلام میڈیا میں غلط بیانی کر کے شیعوں اور سنیوں کے درمیان تفرقہ ایجاد کر نا چاہتے ہیں۔ 

انہوں نے چند ایک مثالیں بھی بیان کیں:

’’ان میں سے ایک مثال وائس آف امریکہ(VOICE OF AMERICA) میں بعنوان ’’ایران میں اہل سنت کی محتاط زندگی‘‘ میں انہوں نے جھوٹے پروپیگنڈے کر کے اہل سنت اور شیعوں کے درمیان جدائی ڈالنے کی ناکام کوشش کی ہے۔ حالانکہ امام خمینی  ؒکے اسلامی انقلاب کی برکت ہے کہ ہم ایران میں امن و سکون کے ساتھ زندگی بسر کر رہے ہیں ، جبکہ انقلاب  سے پہلے ایران میں اہل سنت کے لیے علم حاصل کرنا بھی مشکل تھا۔ اب اس صورت حال میں اہل سنت کے ہزاروں افراد ایران کے مختلف سرکاری اداروں میں ملازم ہیں۔ مثلاً فوج، پولیس اور دیگرمحکمے بلکہ کئی ہزار افراد محکمہ تعلیم کے مختلف شعبوں میں تحصیل علم اور تدریس میں مشغول ہیں۔ ‘‘

مسجد صادقیہ کے امام جمعہ کا کہنا ہے کہ: 

’’ہمارا عقیدہ ہے کہ آج کے یزیدیوں کے مقابلے میں حزب اللہ اور حماس کی حمایت کریں جو امریکہ ، اسرائیل اور ان کے اتحادیوں کے لیے خوف کا باعث ہیں۔‘‘

وہ کہتے ہیں کہ:

’’میں نے شیعوں اور اہل سنت کے علمی مراکز میں کئی تقاریر کی ہیں اور مجھے علمی ماحول فراہم کیا گیا ہے، ایران میں شیعوں کے علمی مراکز میں  بھی مجھے مدعو کیا جاتا ہے اور میں آزادانہ طور پر اپنے موقف کو بیان کرتا ہوں۔ اللہ کے لطف و کرم سے ایران میں سرکاری طور پر اہل سنت کو محبت، سکون اور امن و سلامتی کا ماحول فراہم کیا گیا ہے، نماز عیدین، ایرانی پارلیمنٹ کے مدیروں کے ساتھ ملاقاتیں اور یوم القدس کے جلوس ، رویت ہلال کمیٹی کے اجلاس اور مختلف امور میں ہماری شرکت اس کا واضح ثبوت ہے‘‘ ۔  

ایران کی پارلیمنٹ میں اہل سنت سے تعلق رکھنے والے اٹھارہ سے زائد پارلیمانی ممبران ہیں جبکہ عیسائی و یہود یوں کی چند اقلیت کی سیٹیں ہیں : There are 18 Sunni parliament members in Iranian parliament. 

ایران میں کُل پندرہ ہزار مساجد ہیں جبکہ اہل سنت ایران کی آبادی کے اعتبار سے آٹھ فیصد ہیں اگر اس لحاظ سے دیکھا جائے تو شیعوں سے بھی زیادہ مساجد ہیں، مگر ان کو اقلیت میں شمار نہیں کیا گیا اور انکو وہی حقوق حاصل ہیں جو کہ اہل تشیع کو حاصل ہیں۔

اس لنک پر مصری سُنی صحافی کی ایران میں اہل سنت کے بارے میں ڈاکیومنٹری فلم ملاحظہ کرسکتے ہیں:

https://www.facebook.com/MuslimUnityPak…/

آخر میں ایک غلط فہمی کا ازالہ کرنا ضروری ہے، وہ یہ کہ مکتب اہل بیت علیہم السلام میں مسجد کا تصور یہ ہے کہ یہ کسی خاص فرقے کے ساتھ خاص نہیں، بلکہ یہ اللہ کا گھر عبادت گاہ ہے ، شیعہ حضرات کو حق حاصل نہیں کہ اپنی مساجدمیں اہل سنت برادران کو منع کریں، اسی طرح اہل سنت بھائی بھی جانتے ہیں کہ یہ عبادت خانے کسی کی ذاتی ملکیت نہیں بلکہ اس میں ہر مسلمان شرکت کر سکتا ہے۔ چند شرپسند عناصر شیعہ سنی فسادات کرا کے اپنے آقاؤں کو خوش کرنے کے لیے ملک میں بدامنی پھیلاکر ایک دوسرے کے خلاف بھڑکانا چاہتے ہیں، یہ نہ شیعہ ہیں اور نہ ہی سنی بلکہ ان کا اسلام کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ 

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .